۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ امام رضاؑ نے ان کی حکومت میں مناظروں، مجالس اور علمی نشستوں کے ذریعے سے اہلبیتؑ کا ایسا تعارف کروایا کہ لوگ آج تک اہلبیت ؑکو نہیں بھول پائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ خالق کائنات نے انسان کو عزت و کرامت دی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانوں کے درمیان آخری نبی بنا کر بھیجا اور ان کیساتھ ایک حکمت سے بھری کتاب کو نازل کیا۔ اب مسلمان ہونے کے ناطے سے ہم پر قرآن مجید کا پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ قرآن مجید میں انسان کا تذکرہ 833 مرتبہ آیا ہے، البتہ انسان کو سرکش، ناشکرا، خاسر، ظالم، جاہل، حریص، مغرور، کنجوس اور جزع فزع کرنیوالے جیسی صفات سے یاد کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ انسان کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مکرم اور احسن تقویم بنا کر بھیجا تھا، وہ اس کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں، جیسا کہ قوم صالح، قوم ہود اور قوم لوط وغیرہ کہ جب انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور گڑبڑ کی تو اللہ تعالیٰ نے ہلاک اور تباہ کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کا خلیفہ بنایا ہے اور ہم بھی ان قوموں سے کچھ پیچھے نہیں رہے۔ البتہ ہم پر دو وجوہات کی بنا پر عذاب نازل نہیں ہوتا۔ ایک وجہ یہ ہے کہ جب تک ہمارے اندر لوگ استغفار کرتے رہیں گے اور حجت خدا کا وجود ہے۔ ان دو وجوہات کی بنا پر ہمیں کلی عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔ البتہ تنبیہ کیلئے چھوٹے اور جزوی عذاب (جیسا کہ کشمیر میں زلزلے سے 57 ہزار لوگ مارے گئے) آتا رہے گا۔

علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ میں آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا رسول اللہ کے زمانے کے نادار اور مظلوم لوگ جلد مسلمان ہو گئے۔ لیکن مترفین اور دولت مند لوگ ایمان لانے کیلئے شرائط لگاتے رہے۔ کبھی کہتے کہ تمہارے خدا کیساتھ ساتھ ہمارے خداوں کی بھی پوجا کی جائے، بعض کہتے کہ ہم ایمان لاتے ہیں البتہ نماز نہیں پڑھیں گے اور ان میں سے کچھ کہتے تھے کہ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب لاو۔ رسول اللہ کو حکم ہوا کہ ان سے کہو کہ میں نبی ہوں اور وحی کے مطابق تم پر احکام الٰہی بیان کرتا ہوں۔ میں اپنی نفسانی خواہش سے وحی، شریعت اور دین خدا میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اگر میں اللہ کے دین میں تبدیلی کروں تو مجھے عظیم دن کے عذاب کا خوف ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دین میں کیسی کیسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ جیسے کہا گیا ہے کہ خمس صرف مال غنیمت پر ہے۔

ان کا کہنا تھا رسول اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی اہلبیت کو چھوڑ دیا گیا۔ جب امیر المومنین علی ؑشہید ہوئے تو شامی لوگ ایک دوسرے سے کہتے، مسجد میں علی کا کیا کام! مسلمانوں کے درمیان اہلبیتؑ پیامبر کیخلاف فضا کو اس قدر مسموم کر دیا گیا تھا کہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ حسنین، علی، فاطمہ اور رسول اکرم کا آپس میں رشتہ کیا ہے؟ جب کربلا واقع ہوئی تو لوگوں پر اہلبیتؑ کا نام آیا اور لوگوں کو کسی حد تک اہلبیت ؑ کی شناخت ہوئی۔

اس واقعہ کے بعد بنو عباس کے زمانے میں پھر اہلبیتؑ کو بھلا دیا گیا۔ حتیٰ کہ مامون الرشید نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے حضرت امام علی رضا ؑ کو مدینہ سے خراسان میں ولی عہدی کیلئے بلایا۔ جب انہوں نے انکار کیا تو کہا گیا اس میں تمھیں اختیار نہیں، یہ حکومتی آرڈر ہے، امام رضاؑ نے مجبوراً اس شرط کیساتھ ولی عہدی کو قبول کیا کہ حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کروں گا۔ امام رضاؑ نے ان کی حکومت میں مناظروں، مجالس اور علمی نشستوں کے ذریعے سے اہلبیتؑ کا ایسا تعارف کروایا کہ لوگ آج تک اہلبیت ؑکو نہیں بھول پائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .